ہائے حسین ہائے حسین ہائے حسین
ہائے تنہائی میری ہائے تنہائی میری ہائے تنہائی میری
عباس مرگئے علی اکبر جدا ہوا
ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کے کیا ہوا۔
واحسرتا کے ٹوٹ گئی ہے مری کمر
واغربتا اب آنکھوں سے آتا نہیں نظر
جینے کا اب جواز ہمارے نہیں رہا
خالی علم اٹھا کے میں خیمے میں لے گیا
لایا ہوں تنہا لاشہِ ہمشکلِ مصطفے
غربت پہ میری ہنستا ہے لشکر یزید کا
غازی کے ٹکڑے دیکھ کے ٹکڑے ہوا جگر
داڑھی سفید ہوگئی اکبر کی لاش پر
اک دو پہر میں ہم پہ ستم کیسا ہوگیا
کہتے ہیں اب بلائیے امداد کے لئے
بولو حسین اکبر و غازی کہاں گئے
دیتے ہیں طعنے پرسے کے بدلے یہ اشقیا
سوچا تھا مجھ سے آ کے کہیں گے یہ کلمہ گو
دونوں پرسہ دینے ہم آئیں ہیں آپ کو
حسرت یہ لے کےقبر میں مظلوم جائے گا
مر جائے گر کسی کا کوئی بھائی یا پسر
اُس کو دلاسے دیتے ہیں آ آ کے سب بشر
ہائے مگر ہماری غریبی کی انتہا
چاروں طرف ہے تیروں کی بوچھار دیکھ لو
ہم پر سبھی اٹھائے ہیں تلوار دیکھ لو
زینب بتاؤ اب کہاں جاکر کریں گِلا
خنجر تلے بھی شہہ کو تکلم یہی تھا غم
کتنے غریب ہوگئے کرب و بلا میں ہم
خنجر رواں تھا پڑھتے تھے مولا یہ مرثیہ
Comment