آخری عمر میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں
اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں
جالیاں دیکھوں کہ دیوار و در و بامِ حرم
اپنی بے نور نگاہوں سے میں کیا کیا دیکھوں
میں کہاں ہوں یہ سمجھ لوں تو اٹھاؤں نظریں
دل جو سنبھلے تو میں پھر گنبدِ خضریٰ دیکھوں
میرے مولا میری آنکھیں مجھے واپس کر دے
تا کہ اس بار میں جی بھر کے مدینہ دیکھوں
جن گلی کوچوں سے گزرے ہو کبھی میرے حضورﷺ
ان میں تا حدِ نظر نقشِ کف پا دیکھوں
تا کہ آنکھوں کا بھی احسان اٹھانا نہ پڑے
قلب خود آئینہ بن جائے میں اتنا دیکھوں
کاش اقبال ؔ یونہی عمر بسر ہو میری
صبح کعبے میں اور شام کو طیبہ دیکھوں
صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
Comment