ہائے
تنہا حسین لاکھوں لعینوں میں گِھر گیا
تلوار و تیر و نیزوں سے زخمی بہت ہوا
گھوڑے کی زین سے جو گرا ابنِ فاطمہ
نہ زین نہ زمین پہ تیروں پہ رک گیا
مقتل میں خاک اڑاتی ہے رو رو کے سیدہ
خنجر لعیں کا گردنِ شبیر پر چلا
تیروں کی زد پہ ہے دمِ اطہر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
تیروں کی زد پہ ہے دمِ اطہر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
قاتل میرے حسین کے سینے پہ تھا سوار
پتھر پہ اُس نے کُند کی خنجر کی پہلے دھار
نزدیک تھا کہ شہ رگِ مظلوم پہ ہو وار
زہرا نے ہاتھ رکھ دیئے رو رو کے زار و زار
اے شمعر سر نہ کاٹیو مضطر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
سر کاٹ کر چلا ہے ستم گر حسین کا
بولے حسین شمعر سے مجھ کو ہے یہ یقین
ہمشیر میری ریت کے ٹیلے پہ ہے ہزیں
منظر وہ میرے قتل کا نہ دیکھ لے کہیں
لے جا…
Comment