بولا فوجِ شام سے مجھے پہچانو اے مسلمانو! نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں میرے ہونٹوں کو چوما نبی نے میری گردن پہ بوسہ دیا ہے مجھ کو مہمان تم نے بلایا اور پانی کو ترسا دیا ہے دشمنوں کو بھی میں تو پانی پلاتا ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں ناز میرے اٹھائے نبی نے میری خاطر وہ ناقہ بنے ہیں ان کی زلفوں سے کھیلا ہے میں نے جن کی نعلین سب چومتے ہیں کالی کملی میں میں تو بچپن سے جھولا ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں غرورِ فوجِ ستم گر کو توڑ سکتا ہوں رخِ فرات کو پل بھر میں موڑ سکتا ہوں علی کا بیٹا ہوں معجز نمائیوں کی قسم میں آفتاب سے پانی نچوڑ سکتا ہوں تم نے مجبور سمجھا ہے مجھ کو دسترس میں میری دو جہاں ہیں ہے سمندر پہ میری حکومت میری مرضی سے دریا رواں ہیں اپنی ٹھوکر سے میں تو چشمے بہاتا ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں آسماں والے گھر سے ہمارے روٹیاں لے کے جاتے رہے ہیں اور مدینے میں بھئیا حسن بھی سب کو کھانا کھلاتے رہے ہیں ساقئِ کوثر جو ہے اس کا بیٹا ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں ایسا کوئی بھی نانا نہیں ہے ایسا کوئی نواسہ نہیں ہے بس یہی بات ہے یاد سب کو میرے نانا کا سایہ نہیں ہے اے مسلمانو! میں محمد کا سایہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں میرے بابا علی مرتضیٰ نے اپنے قاتل کو پانی پلایا حُر کے دستے نے روکا تھا مجھ کو میں نے سیراب ان کو کرایا پیاس خنجر کی اپنے خوں سے بُجھاتا ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں نبی کا نواسہ ہوں پھر بھی میں پیاسا ہوں ہائے فرحان و ظلِ رضا پانی دیتا ہے اب بھی سدا مولا۔۔۔۔۔۔۔ مولا، مولا مجھ کو خیموں میں آنے سے روکا گیا میرے ساحل پہ پہرہ لگایا گیا صرف تو ہی نہیں میں بھی پیاسا رہا تیرے ہونٹوں کو میں بھی ترستا رہا حکم آنے کا دیتے مجھے آپ جو پھر میں زحمت بھی دیتا نہ عباس کو میں خود خیموں ٹکرا جاتا مولا۔۔۔۔۔ ہاں میری لہریں کریں گی حشر تلک تیری پیاس کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین عباس کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین ہاں اک تیر کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین زنجیر کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین خنجر کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین چادر کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین بازار کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین ہاں دربار کا ماتم ہائے حسین ہائے حسین
Comment